جلوہ فرمائے دو عالم ہے مگر رو پوش ہے

حسنِ معنی شوخیوں میں بھی حیا آغوش ہے

پینے والے ہی نہ ہوں محفل میں تو امرِ دگر

ورنہ ساقی تو ازل سے میکدہ بردوش ہے

ہوش والوں کا تمسخر کیوں ہے اے مستِ جنوں

نقطۂ آغاز تیرا بھی رہینِ ہوش ہے

بعدہٗ کیا کیفیت گزری نہیں معلوم کچھ

صاعقے چمکے تھے نزدِ آشیاں یہ ہوش ہے

مر کے بھی حاصل نہیں کامل سبکدوشی مجھے

میری میت دیکھیے آ کر کفن بردوش ہے

اک ذرا سی ٹھیس پر آنسو نکل پڑتے ہیں کیوں

دل ہے سینہ میں نظرؔ یا ساغرِ سر جوش ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]