جنگ اندھیرے سے بادِ برہم تک

ہے چراغوں کی آخری دم تک

آدمی پر نجانے کیا گزری

ابنِ آدم سے ابنِ درہم تک

تم مسیحا کی بات کرتے ہو؟

ابھی خالص نہیں ہے مرہم تک

معجزہ دیکھئے توکل کا

ریگِ صحرا سے آبِ زمزم تک

داستاں ہے شگفتنِ دل کی

خندۂ گل سے اشکِ شبنم تک

اک سفر ہے کہ طے نہیں ہوتا

سرخ ہجرت سے سبز پرچم تک

فاصلے کیسے، دوریاں کیسی؟

جن کو ملنا تھا آ گئے ہم تک

پیار دھرتی پہ ہے خلا میں نہیں

آسماں کو ظہیؔر کم کم تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]