جن پر تری نگاہ پڑی وہ سنور گئے

جن سے تری نگاہ پھری وہ بکھر گئے

اس دور پر ملال میں آئے گی کیا ہنسی

خنداں لبی کے یار زمانے گذر گئے

منزل تمام عمر نہیں مل سکی انہیں

رستے میں پا کے چھاؤں کہیں جو ٹھہر گئے

آلامِ زندگی میں مزہ زندگی کا ہے

وہ کیا جیئیں گے جو غمِ دوراں سے ڈر گئے

خودداری و ضمیر و وفا جن کی مر گئی

وہ لوگ اپنی موت سے پہلے ہی مر گئے

آشفتگانِ عشق کا عالم نہ پوچھیے

نکلے تری طلب میں تو واپس نہ گھر گئے

دونوں جہاں میں ہیں وہی سرخرو اثر

دارو رسن سے ہنستے ہوئے جو گذر گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]