جن کے سینے میں ہے اکرام علی اکبر کا

ذکر کرتے ہیں وہ ہر شام علی اکبر کا

ان کو بخشی ہے شہادت نے حیاتِ ابدی

رونقِ خلد ہے انعام علی اکبر کا

کربلا جائیں گے سادات کی خوشبو لینے

جن میں ضو بار ہے اک نام علی اکبر کا

روشنی کیا ہے یہ اندازہ بھی ہو جائے گا

دامنِ نور ذرا تھام علی اکبر کا

نقدِ جاں پیش کیا دینِ محمد کے لئے

قابلِ رشک ہے یہ کام علی اکبر کا

دل کو سرشار کئے دیتا ہے الفت کا وفور

نام جب لیتا ہوں گلفام علی اکبر کا

میرے ہمراہ چلے سرخ گلابوں کا ہجوم

ساتھ مل جائے جو دو گام علی اکبر کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]