جوکر

ایک سہانی شام تھی شاید

پائل کی جھنکار کو لے کر

وہ میرے کمرے میں آئی

میز پہ رکھی تاش کی ڈبیا

کھول کے اُس نے سارے پتے

شوخ سے اِک انداز میں آکر

میری جانب پھینک دیئے تھے

میں آنکھوں میں دھر حیرانی

اپنی گود اور چاروں جانب

بکھرے پتے دیکھ رہا تھا

اینٹ کی اٹھّی، چڑیا کی ستّی

پان کی دسّی، حُکم کا چوکا

سب کے سب حیرت میں ڈوبے

اُس کا چہرہ دیکھ رہے تھے

آدھی رات کے سناٹے میں

اُس کی ہنسی سے میں جب چونکا

اُس کے ہاتھ میں دو پتے تھے

ہنستے ہنستے، اُکھڑی اُکھڑی سی آواز میں

مجھ سے بولی

چاہے رنگ ہو، یا بھابی ہو

منگ پتا، یا کھیل ہو دل کا

مِرے حساب میں زینؔ پیا جی

بالکل ایسے جوکر ہو تم

جیسے میرے ہاتھ میں دونوں

سارے پتوں کے سنگ رہ کر

ہر اِک کھیل شروع ہوتے ہی

تم محروم ہی رہ جاتے ہو‘‘

پھر اُس نے وہ دونوں جوکر

باری باری پھینک دیئے تھے

اور کمرے سے رُخصت ہو کر

جانے کون سے دیس بسی وہ

اور اب مدت بیت چکی ہے

آج اُسی کمرے میں آکر

وہی کہانی سوچ رہا ہوں

پلنگ پہ بکھرے تاش کے پتے

ہاتھ میں دونوں جوکر لے کر

گھنٹوں بیٹھا دیکھ رہا ہوں

شاید وہ بھی کسی گھڑی میں

میرے بارے سوچ رہی ہو

جیسے کوئی حُکم کی بیگم

پان کا راجہ کھوج رہی ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]