جو دل دھڑک رہے تھے وہ دف بھی نہ ہو سکے

اس بار معرکے میں ہدف بھی نہ ہو سکے

پھر ڈھونڈنا پڑا ہے اسی چیرہ دست کو

یہ خواب اپنے آپ تلف بھی نہ ہو سکے

موتی تو ہو چکا تھا دل و جان سے کوئی

لیکن یہ ہاتھ ہیں کہ صدف بھی نہ ہو سکے

اس صف شکن جنونِ بلا خیز کے لیے

اپنے قلیل خواب تو صف بھی نہ ہو سکے

جب رن پڑا تو پھر کوئی تفریق تھی کہاں

وہ کٹ مرے جو تیغ بکف بھی نہ ہو سکے

ناصر کتابِ عمر کی بوسیدگی نہ پوچھ

اتنی ہے فرد فرد کہ لف بھی نہ ہو سکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]