جو دیکھا ترا نقشِ پا غوثِ اعظم

تو خم ہوگیا سر مِرا غوثِ اعظم

نہیں بادشاہوں سے کم اس کا رتبہ

ترے در کا ہے جو گدا غوثِ اعظم

کہیں اس کو جانے کی حاجت نہیں ہے

جسے مل گیا در ترا غوثِ اعظم

ملا مجھ کو دامانِ شاہِ مدینہ

جو دامن ترا مل گیا غوث اعظم

عجب کیا ؟ کسی روز آجائیں یونہی

مرے سامنے برملا غوثِ اعظم

قدم کس کا ہے گردنِ اولیا پر ؟

یہ اعزاز کس کو ملا غوثِ اعظم ؟

نہیں قید اپنے پرائے کی کوئی

تو سب کا ہے حاجت روا غوث اعظم

ترے سامنے جب بھی دامن پسارا

ملا ہے طلب سے سوا غوث اعظم

جو سیراب رکھے مری کشتِ جاں کو

وہ ابرِ عطا ہے ترا غوثِ اعظم

مدد کیسے آتی ہے پھر دیکھنا تم

پکارو ذرا دل سے یا غوث اعظم

مجیبؔ آکے چومے ترے سنگِ در کو

ہے میری یہی التجا غوثِ اعظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]