جو زلف یار لہرائی بہت ہے

یہ دل اسکا تمنائی بہت ہے

مرا دامن نہیں خالی کہ اس میں

متاع درد تنہائی بہت ہے

تری خاموش آنکھیں کہہ رہی ہیں

غضب ہے ان میں گویائی بہت ہے

میں جھوٹے شہر کا باسی ہوں لیکن

مری باتوں میں سچائی بہت ہے

یہ صحرائے محبت ہے مسافر

یہاں پر آبلہ پائی بہت ہے

تمہاری خاک پا ہے ان کا سرمہ

جبھی آنکھوں میں بینائی بہت ہے

ہمارا آشیانہ دیکھتے ہی

خوشی سے برق لہرائی بہت ہے

سنبھل کر بحر الفت میں اترنا

کہ اس پانی کی گہرائی بہت ہے

میں دشت عشق کا ہوں اک مسافر

سو وحشت مجھ کو راس آئی بہت ہے

بہ صدق دل جو کی جائے کسی سے

تو نوری ایک اچھائی بہت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]