جو عکس جیسا، جہاں رکھ دیا، نہیں بدلا

کہ خواب میں بھی کبھی آئنہ نہیں بدلا

تمام عمر محبت کا شہد کھاتے رہے

سو تلخیوںنے کبھی ذائقہ نہیں بدلا

خرد نے میرے جنوں پر ہزارفتوے دیے

مری یہ سوچ ، مرا فلسفہ نہیں بدلا

وفا کی راہ گزرتی ہے ہوکے مقتل سے

میں جانتا تھا مگرراستہ نہیں بدلا

لکھا ہوا تھا لکیروں میں فاصلہ قیصرؔ

سو ہم نے عشق کیا ، فیصلہ نہیں بدلا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]