جو مرا ہمنوا نہیں ہوتا

وہ ترے شہر کا نہیں ہوتا

شاخ پر ہیں ہرے بھرے پتّے

پھول لیکن ہرا نہیں ہوتا

آج بھی آہنی جنوں کا حق

پتھروں سے ادا نہیں ہوتا

کہکشاں کو نچوڑ کر پی لیں

جام پھر بھی جُدا نہیں ہوتا

منصفی میں دخیل ہیں کچھ لوگ

اس لئے میں بُرا نہیں ہوتا

وہ بلاتے نہیں کبھی مجھ کو

پاس جب آئینہ نہیں ہوتا

ہاتھ سونا نگاہ چاندی کی

پاس امیروں کے کیا نہیں ہوتا

وہ صدائے طلب سے ڈرتے ہیں

اِک دریچہ بھی وا نہیں ہوتا

ہے یہ ذوقِ نظر کی بات ضیاؔ

کوئی زیرِ ردا نہیں ہوتا​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]