جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے

واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں

ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے

تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح

ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے

یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر

اک ظاہری اڑان بچی تھی سو بھر چکے

یہ بھی خبر نہیں ہے مسیحائے عشق کو

دل بھر چکا ہے یا کہ ترے زخم بھر چکے

تھا اک غرورِ وصفِ خدائی نہیں رہا

اور ایک تھی جبین جو قدموں میں دھر چکے

آباد ہے خیال کی شاخوں پہ آشیاں

تنکوں کا پوچھتے ہو تو تنکے بکھر چکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]

الجھے ہوئے ہیں عمر کی شاخوں کے ساتھ ہم

نکلے تھے رقص کرنے بگولوں کے ساتھ ہم وقتِ سحر کھلی ہے تو اوقات رہ گئی اترے تھے ایک آنکھ میں خوابوں کے ساتھ ہم دیوار و در پہ رقص کناں دیکھتے ہوئے مانوس ہو چلے ہیں ہیولوں کے ساتھ ہم بنتِ قمر کوئی تھی ، کہ خورشید زاد تھے آخر بجھا دیے گئے پھونکوں […]