جہاں سے نقش ظلمت کا مٹانا کس کو آتا ہے

چراغ دین دنیا میں جلا نا کس کو آتا ہے

رضائے رب کی خاطر گھر لٹا نا کس کو آتا ہے

قضا کی چھاؤں میں بھی مسکرانا کس کو آتا ہے

یزیدی ظلمتوں میں کفر و باطل کے اندھیرے میں

مثال مہر تاباں جگمگانا کس کو آتا ہے

زمین کربلا آواز دے گی یہ قیامت تک

خدا کے نام پر قربان جانا کس کو آتا ہے

وہ منظر دیکھ کر ماتم کیے ہیں آسمانوں نے

غم شبیرؓ میں آنسو بہانا کس کو آتا ہے

زمانہ کب بھلا سکتا ہے سقائے سکینہ کو

وفاداری میں یوں بازو کٹانا کس کو آتا ہے

اُسی نانا کے سجدوں کی یہی تعلیم تھی ورنہ

برستی آگ میں سجدے میں جانا کس کو آتا ہے

زمین نینوا گلنار ہے، خون شہیداں سے

لہو رگ رگ کا گلؔ ، حق پر بہانا کس کو آتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]