حبس جاں رونے سے کچھ اور گراں ہوتا ہے

آگ بجھتی ہے تو انجام دھواں ہوتا ہے

تاب گفتار ہی باقی ہے نہ موضوع سخن

اب ملاقات کا ماحول زباں ہوتا ہے

کھینچ لائی ہے ضرورت مجھے کن راہوں میں

ہر قدم پر مجھے دھوکے کا گماں ہوتا ہے

غیرسے میری شکایت کا مجھے رنج نہیں

گلہ شکوہ بھی محبت کا نشاں ہوتا ہے

کارِ دنیا کا ہمالہ ہے مجھے ریت کا ڈھیر

دل نہ چاہے تو یہی کوہ گراں ہوتا ہے

ربطِ محکم بھی ضروری ہے صد اخلاص کیساتھ

معجزہ صرف دعاؤں سے کہاں ہوتا ہے

جس عمارت میں توازن نہ دکھائی دے ظہیرؔ

اُس کی بنیاد میں اک سنگِ زیاں ہوتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]