حبیب ِ سیدِ کونین ہونے کی تمنا ہے

حبیب سیدِ کونین ہونے کی تمنا ہے

بس اس قیمت پہ ہر اِک چیز کھونے کی تمنا ہے

برا کیا اگر اس دکھ میں یہ آنکھیں بجھ ہی جائیں

اب ان کی دید تک پیہم ہی رونے کی تمنا ہے

میں ان کے پیار کے جھنڈے لگا دوں ایک اک دل میں

سبھی کے دل میں اپنا دل سمونے کی تمنا ہے

ہیں دیوانے تو دیوانے ! اِ نھیں اشکوں کی کیا قلت

کہ فرزانوں کو اس مینہ میں بھگونے کی تمنا ہے

ہے کیسا عشق ، وہ غم میں ہمارے خون میں ڈوبیں

ہمیں لیکن یہ غم اشکوں سے دھونے کی تمنا ہے

وہ اُن کے نام کی حُرمت ! ادھر یہ سر سلامت بھی

جگر کے خوں سے اب یہ داغ دھونے کی تمنا ہے

کسی کی ہے تمنا ہوں زمیں پر تخت سونے کے

کسی کی مدفن ِ طیبہ میں سونے کی تمنا ہے

اگرنہ جام ِ کوثر تک ہی اپنے چشم ولب پہنچے

عبث پھر بارِ جسم وجان ڈھونے کی تمنا ہے !

خیال وخواب سے ، نظروں سے تصویریں ہٹا دوگر

نگہ میں جلوہ جاناں سمونے کی تمنا ہے

سلاموں سے ، درودوں سے معطر ہو مراجیون

بچی سانسوں میں یہ غنچے پرونے کی تمنا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]