حریمِ ناز

حریمِ ناز، تری خوبروئی کے صدقے

وہ درد ڈھونڈ لیا ہے جو لادوا ٹھہرے

وہ شورِ شورشِ جذبات جب فسانہ ہوا

تو چپ ملی مجھے ایسی کہ مدعا ٹھہرے

حریمِ ناز ، تری صاف دامنی کے لئے

مٹا لیے ہیں خد و خال آج اپنے ہی

حریمِ ناز ، تری تازگی سلامت ہو

گھٹا لیے ہیں مہ و سال آج اپنے ہی

حریمِ ناز ، تری حدتیں جوان رہیں

ہمارا خون بھلے پھر سے برف ہو جائے

حریمِ ناز ، تجھے سر بلند کرنا ہے

یہ نقدِ جان بھلے اس میں صرف ہو جائے

حریمِ ناز ، تری دلربائیاں قائم

جو وقت ہوش ربا ہے تو کوئی بات نہیں

حریمِ ناز ، جئیں خواب ناکیاں تیری

نظر سے خواب جدا ہے تو کوئی بات نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]