حزنیہ ہے کہ طربیہ، جو ہے

حزنیہ ہے کہ طربیہ ، جو ہے

مسکراہٹ نہیں گئی اب تک

چھو کے ماتھے کو حال پوچھا تھا

سنسناہٹ نہیں گئی اب تک

دل کے آنگن میں خاک اڑتی ہے

تیری آہٹ نہیں گئی اب تک

سانپ رینگا تھا ہجر کا دل میں

سرسراہٹ نہیں گئی اب تک

کپکپاتے لبوں کے بوسے کی

تھرتھراہٹ نہیں گئی اب تک

قافلے عشق کے رکے کیوں ہیں

عقل کیا ہٹ نہیں گئی اب تک

چپ ہوا یوں تو مجمعِ وحشت

بھنبھناہٹ نہیں گئی اب تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]