حسابِ سود و زیاں بعد میں بتاتا ہوں

غبارِ خانہِ برباد بیٹھ تو جائے

خموش جھیل پہ ساکت ہے زرد چاند جہاں

وہیں پہ سر کو جھکائے کھڑے ہیں دو سائے

بس ایک بار تعین تو منزلوں کا کرے

مجھے جنون بھلے راہ بھی نہ دکھلائے

ہوائے ہجر کثافت میں ریت ہو جیسے

میں چاہتا ہوں مجھے سانس بھی نہیں آئے

مرے خیال میں بہتر رہے گا میں نہ رہوں

بتائیے کہ بھلا آپ کی ہے کیا رائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]