حسرت سے کھُلے گا نہ حکایت سے کھُلے گا

اب بابِ اثر صیغۂ مدحت سے کھُلے گا

ممکن نہیں حرفوں کے تواتر سے وہ اُبھرے

وہ اسمِ کرم موجۂ نکہت سے کھُلے گا

دیکھیں گے ارَم جا کے مدینے کی گلی میں

حیرت کا جہاں کوچۂ حیرت سے کھُلے گا

معراج نے بخشے ہیں نئے شوقِ ترفّع

افلاک کا در آپ کی رفعت سے کھُلے گا

اُمیدِ زیارت میں ہے خوابیدہ یہ منظر

سو آنکھ کا گھر لمعۂ طلعت سے کھُلے گا

خاموش دھرے ہوں گے ریاضت کے وظیفے

بخشش کا دریچہ تری رحمت سے کھُلے گا

یہ جو کفِ احساس میں ہے حرفِ تسلی

اے جانِ کرم ! تیری عنایت سے کھُلے گا

رنگینیٔ دُنیا ترے تلووں کا ہے دھووَن

محشر کا سماں شوخیٔ قامت سے کھُلے گا

امکان میں لانے کو تری نعت کا منظر

حرفوں کا جہاں خامۂ نُدرت سے کھُلے گا

سَو وہم میں اُلجھا ہُوا تدبیر کا رستہ

مقصودؔ! یہ اب اسمِ کرامت سے کھُلے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]