حسن و جمالِ روضہء اطہر نظر میں ہے

منظر ابھی تلک وہ برابر نظر میں ہے

ظلماتِ گرد و پیش مجھے کیا ڈرائیں گی

صد شکر اُن کا رُوئے منور نظر میں ہے

میں ہوں سیہ کار مگر روزِ حشر بھی

مہر و عطائے شافعِ محشر نظر میں ہے

آغاز جس کا حضرتِ حسانؓ سے ہوا

وہ کاروانِ شوق مسلسل سفر میں ہے

جو لمحہ اُن کے ہجر میں مجھ پر گزر گیا

وہ اشک بن کے اب بھی مری چشمِ تر میں ہے

جو ہے جبینِ سیدِ خیر الانام پر

ایسی چمک کہاں کسی لعل و گہر میں ہے

رُئے زمیں پہ اس کی نہیں ہے کوئی مثال

اشفاقؔ ایسا کیف نبی کے نگر میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]