حسین کہیے جنہیں مصطفیٰ کے سائے ہیں

یہ وہ ہیں جن کے سب انداز رب کو بھائے ہیں

انھیں کے واسطے آئے ہیں خلد سے میوے

انہیں کے واسطے جبریل جوڑے لائے ہیں

انھیں کے کاندے پہ دین خدا کا ہوگا علم

وہ جن کو دوش پہ اپنے نبی بٹھائے ہیں

حسین روح عبادت حسین جان حیات

سراپا عکس پیمبر وہ بن کے آئے ہیں

نظر کے سامنے اصغر سا پھول مرجھایا

حسین ایسے بھی عالم میں مسکرائے ہیں

زمانہ ان کی کہاں پیش کر سکے گا مثال

یہ اپنے آپ میں اپنی مثال لائے ہیں

ارے یہ کس کو ستاتے ہو ظالمو! سوچو

یہ کس کے لخت جگر ہیں یہ کس کے جائے ہیں

مٹے گی ان کی محبت نہ جسم مٹنے سے

مرے حسین مری روح میں سمائے ہیں

غم حسین میں سینہ زمیں کا چاک ہوا

فلک نے خون کے آنسو اگر بہائے ہیں

حسین پاک کی عظمت کے جو بھی ہیں منکر

سمجھ لو خوب وہ اپنے نہیں پرائے ہیں

انہیں کا نام زمانے میں آج ہے رو شن

نبی کی آل سے جو رابطہ بنائے ہیں

کسی کا اور کہاں نورؔ ہونے والا ہے

دل و دماغ پہ اس کے حسین چھائے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]