حصار نور میں ہوں گلشن طیبہ میں رہتا ہوں

خوشا قسمت کہ میں تو جلوۂ زیبا میں رہتا ہوں

شفق پھیلی ہو یا ہو صبح کے انوار کا منظر

میں بے خود سا خیال سنتِ آقا میں رہتا ہوں

مری سوکھی ہوئی کھیتی خدا سر سبز کر دے گا

میں روز وشب خیالِ گنبد خضریٰ میں رہتا ہوں

شعورِ زندگی پاتا ہوں میں دونوں حصاروں سے

کبھی بطحا میں رہتا ہوں، کبھی طیبہ میں رہتا ہوں

اطاعت کے جس گوہر تمنا ہے مری ہر دم

شفیع المذنبیں کے ضوفشاں اسوہ میں رہتا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]