’’حضور نے کُفر کے اندھیروں کو روشنی کا شعور بخشا‘‘

جہالتوں کے بتوں کو توڑا ہے ، آگہی کا شعور بخشا

عبادتوں کا پتہ تھا کس کو، ریاضتوں کی خبر کسے تھی

خُدا کے بندوں کو آپ ہی نے تو بندگی کا شعور بخشا

وہ بیل بوٹوں پہ تھی یبوست ، چمن چمن تھے خزاں رسیدہ

تو صحنِ گُلشن کو پھر سے آقا نے تازگی کا شعور بخشا

غذابھی سادہ ہے پیرہن بھی ، حضور کی زندگی بھی سادہ

اگرچہ مختارِ دو جہاں ہیں پہ سادگی کا شعور بخشا

سہے ہیں ظُلم و ستم ہزاروں ، قدم میں اُن کے نہ آئی لغزش

وہ تیرے عاشق ہیں جن کو تُو نے ہے عاشقی کا شعوربخشا

غرور و پندار کے وہ پیکر کہ جن کے لہجے میں تھی رعونت

اُنہیں بھی سرکارِ دو جہاں نے ہی عاجزی کا شعور بخشا

وہ کفر و الحاد کی سیاہی ، دلوں کو جس نے تھا مار ڈالا

اُنہیں بھی تُو نے جِلا کے آقا ہے زندگی کا شعور بخشا

وہ اپنا لُقمہ بھی اُس کو دیتے جو در پہ آ کے صدا لگاتا

سو خالی داماں کو آپ ہی نے تونگری کا شعور بخشا

حِرا کے اندر کئی دنوں تک ، بغیر اَکل و شَرَب کے رہ کر

تُمہی نے بندوں کو اپنے مولا سے عاشقی کا شعور بخشا

جو راستوں سے بھٹک گئے تھے ، اُنہیں بھی ہادی بنایا تُو نے

بلا کے صحبت میں اپنی اُن کو بھی رہبری کا شعور بخشا

کہاں کہاں سے وہ در پہ آ کر ، جلیل دُکھڑے سنا رہے ہیں

شہ و گدا کو نبیٔ رحمت نے حاضری کا شعور بخشا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]