حوصلہ مند نہیں دل ہی تن آسانوں کے

ورنہ ساحل بھی تو ہے بیچ میں طوفانوں کے

ایک دل ہے کہ ابھی ہو نہ سکا زیرِ نگیں

ورنہ دنیا ہے تصرف میں ہم انسانوں کے

قصے عشاقِ نبی اور نبی کے واللہ

جیسے اک شمع کے اور شمع کے پروانوں کے

سارے ارمان تھے پروردۂ دل یونہی تو

دل کا بھی خون ہوا خون سے ارمانوں کے

اوس دیکھی ہے پڑی سبزۂ بیگانہ پر

پھول کمھلائے سے دیکھے چمنستانوں کے

تجھ سے قربت نہ سہی دور کی نسبت ہی سہی

ہوئے دیوانے یونہی ہم ترے دیوانوں کے

چھوڑ کر پردہ سرا وقت کے تیور دیکھیں

رہنے والے جو ہیں خسخانہ میں ایوانوں کے

رخِ خورشید کہاں گرد میں چھپ سکتا ہے

کہ حقیقت نہ چھپے رنگ میں افسانوں کے

ایک وہ شمع کہ ہے سب کی نظرؔ سے مستور

مقتبس آج بھی دل اس سے ہیں انسانوں کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]