حُسنِ کونین کی تزئین ہے سیرت اُن کی

ہے ہر اِک سورہ قرآں میں بھی صورت اُن کی

میں ہوں انمول ورق مجھ پہ ہے مدحت اُن کی

لفظ اُن کے ہیں بیاں اُن کا عبارت اُن کی

عہدِ سائنس میں ہے عقل و خرد کی معراج

پھر بھی ہر ایک نفس کو ہے ضرورت اُن کی

تازگی برگ گل قدس کی اُن کا صدقہ

گلشنِ خلد کی عطرت ہے صباحت اُن کی

مہرو مہ، سنگ و شجر، لفظ و صدا حسن وجمال

عرش تا فرش سبھی پر ہے حکومت اُن کی

مانگنے والے سنبھل اشکوں کی آواز سنبھال

ہر لطافت سے بھی نازک ہے طبیعت اُن کی

وہ نہ ہوتے تو کوئی بات نہیں بن پاتی

ساری کونین مزے میں ہے بدولت اُن کی

تج کے ہر عیش و اِمارت جو ہوئے اُن کے فقیر

آکے فردوس لگائے ذرا قیمت اُن کی

جب بھی وہ چاہے ہر اک صحرا کو گلشن کر دے

جس کی سانسوں میں بسی ہوتی ہے نکہت اُن کی

میں گنہ گار ہوں لیکن ہوں انہیں کا بیکل

مجھ کو محشر میں بچائے گی شفاعت اُن کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]