حیات کچھ نہیں جو اُن کے ہم نہیں ہوئے تو

سفر عبث ہیں جو سوئے حرم نہیں ہوئے تو

زمانے اپنی ہی نظروں سے گرتے جائیں گے

اگر بلند نبی کے علم نہیں ہوئے تو

یقین کر لو کہ ہم تم بھٹک گئے ہیں کہیں

دیارِ پاک کی جانب قدم نہیں ہوئے تو

وہی نکالیں تو نکلیں گے بحرِ عصیاں سے

وجودیت کے خسارے عدم نہیں ہوئے تو

عمل کا کوئی دیا حشر میں نہ لو دے گا

ہمارے ساتھ جو خیر الامم نہیں ہوئے تو

حوالہ اُن کا میسر ہے تو کسے پرواہ

نگاہِ دہر میں ہم محترم نہیں ہوئے تو

عمل نے جامہءسنت درست پہنا نہیں

اگر فقیری میں رنگِ حشم نہیں ہوئے تو

دکانِ وقت سے کیا سرخوشی خریدیں گے

کرم کے سکے ہی ہم کو بہم نہیں ہوئے تو

ہم اُن کو نعت کی مسجد میں کیسے آنے دیں

جو شعر خونِ جگر سے رقم نہیں ہوئے تو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]