خامہ مرا دیتا ہے بصد عجز گواہی

اوصاف و محامد ہیں ترے لامُتناہی

دُنیا میں جو اِک اسم رہا باعثِ تسکیں

محشر میں کرے گا وہ مری پشت پناہی

امکان میں مہکے کوئی تعجیل کی صورت

احساس تو کب سے ہے ترے شہر کا راہی

بخشی ہے مجھے اپنی ثنا گوئی کی نعمت

بے جا تو نہیں ہے یہ مری طُرفہ مباہی

معمول ترے پا گئے اسنادِ اوامر

متروک ہُوئے تا بہ ابد درسِ نواہی

جب حشر میں برسے گا ترا ابرِ شفاعت

دُھل جائے گی یکلخت مری فردِ سیاہی

رہنے دیں مرے شوق کو بس بحرِ ثنا میں

مَر جاتی ہے لمحوں میں، جو بے آب ہو ماہی

ہم ایسے گنہگار نہیں بھُولنے والے

رکھے گی نگاہوں میں تری فیض نگاہی

آمد نے تری بخشے ہیں ایقان کے منظر

انسان تو تھا جیسے کوئی حرفِ فکاہی

اُس چارہ گرِ شافعِ محشر کی بدولت

مقصودؔ نہیں ہوں گے کبھی نذرِ تباہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]