خاک اُڑتی ہے رات بھر مجھ میں

خاک اُڑتی ہے رات بھر مُجھ میں

کون پھرتا ہے در بدر مُجھ میں

مُجھ کو خود میں جگہ نہیں مِلتی

تُو ہے موجود اِس قدر مُجھ میں

موسمِ گِریہ ! اِک گُذارش ہے

غم کے پکنے تلک ٹھہر مُجھ میں

بے گھری اب مرا مُقدر ہے

عشق نے کرلیا ہے گھر مُجھ میں

آپ کا دھیان خُون کے مانند

دوڑتا ہے اِدھر اُدھر مُجھ میں

حوصلہ ہو تو بات بن جائے

حوصلہ ہی نہیں مگر مُجھ میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]