خدا کا خوف جس دل میں سمائے

وہ عاشق زار خود روئے، رُلائے

جمالِ کبریا جو دیکھ پائے

وہ رکھے راز، سینے میں چھپائے

کرے حمد و ثنا عاشق وہ ہر پل

خدا کی عظمتوں کے گیت گائے

ولی ہے، جو ہے مجذوب و قلندر

سلام اس کو کریں اپنے پرائے

جو ناداں شخص اسے مجنون سمجھے

تو دانا راہ میں آنکھیں بچھائے

ستائے نہ کوئی ان عاشقوں کو

کبھی کوئی نہ ان کا دل دُکھائے

خدا حافظ ظفرؔ عشاق کا ہے

نبی کی رحمتوں کے اِن پہ سائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]