خرد کا جامہٴ پارینہ تار تار نہیں

جنونِ عشق ابھی تجھ پہ آشکار نہیں

ہمارے ذوقِ طلب میں نہ فرق آئے گا

وہ ایک بار کہے یا ہزار بار نہیں

بہ طرزِ عام نہیں میری بادہ آشامی

رہینِ بادۂ باطل مرا خمار نہیں

رہِ طلب کے مصائب بھی عین راحت ہیں

گلِ مراد سے وابستہ خار خار نہیں

تمہارے وعدوں پہ دل کی عجب ہے کیفیت

کچھ اعتبار سا ہے بھی کچھ اعتبار نہیں

خلوصِ توبہ ہے نا معتبر نظرؔ تیرا

کہ تیری آنکھ تو نم ہے دل اشکبار نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]