خطا کار چوکھٹ پہ آئے ہوئے ہیں

جبینِ ندامت جھکائے ہوئے ہیں

زمینِ عرب کس قدر اوج پر ہے

جہاں آسماں سر جھکائے ہوئے ہیں

مدینے کی گلیوں کے پر نور منظر

مری دھڑکنوں میں سمائے ہوئے ہیں

کرم کیجئے اے رسولِ مکرم

بڑے رنج و غم کے ستائے ہوئے ہیں

نگاہوں میں دکھ اور کاندھے پہ اپنے

گناہوں کی گٹھڑی اٹھائے ہوئے ہیں

اُدھر اشک شوئی کی خو آپ کی ہے

اِدھر فرقتوں کے رلائے ہوئے ہیں

ترے جود و لطف و عنایت کے بادل

سرِ ہفت افلاک چھائے ہوئے ہیں

ترا نقشِ پا چوم لینے کی حسرت

ازل سے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں

کرم دو کریموں کا اشفاقؔ پر ہے

کہ عیب اس کے سارے چھپائے ہوئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]