خلش کی بڑھ کے دردِ بیکراں تک بات پہنچی ہے

محبت کی ذرا دیکھیں کہاں تک بات پہنچی ہے

نکل کر آہِ دل میری سرِ عرشِ بریں پہنچی

درونِ دل سے چل کر آسماں تک بات پہنچی ہے

جو منزل تک پہنچ کر اُف پلٹ آیا ہے منزل سے

اسی گم کردہ منزل کارواں تک بات پہنچی ہے

نگاہیں بار بار اٹھتی ہیں سوئے آسماں میری

حدیثِ گلستاں میں آشیاں تک بات پہنچی ہے

چھِڑا محفل میں جب بھی ذکرِ جامِ زہرِ غم دیکھا

اسی شیریں سخن شیریں زباں تک بات پہنچی ہے

حقیقت ہے نظرؔ دیوار و در کے کان ہوتے ہیں

کہی جو زیرِ لب اہلِ جہاں تک بات پہنچی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]