خوابوں کو حقیقت کی تعبیر دکھا دینا
افکارِ عقیدت کی رفتار بڑھا دینا
عقبیٰ ہی کی بس مجھ کو اک فکرِ رسا دینا
دنیا کی محبت کو اس دل سے مٹا دینا
ایمان کے جذبوں کا طوفان سا اٹھتا ہے
میں کیسے رقم کر لوں انداز سکھا دینا
پہلے تو مدینے میں کر لینا طلب مجھ کو
پھر گنبدِ خضریٰ کے والی کی ردا دینا
شاداب میں دیکھوں گا اپنا میں چمن اک دن
گلزارِ مدینہ کی بس اس کو ہوا دینا
کیوں ڈھونڈوں میں دنیا کے ناکام طبیبوں کو
تم میرے مسیحا ہو تم مجھ کو دوا دینا
دربار میں بلوا کے اس چاک گریباں کو
سرکار فداؔ کی بھی توقیر بڑھا دینا
چوکھٹ پہ بلا لینا یہ اس کی تمنا ہے
مضطر ہے فداؔ اس کو افکارِ رسا دینا