خواب آنکھوں میں کئے ایسے کسی نے روشن

بحر ظلمت میں رواں جیسے سفینے روشن

چند لمحے جو ترے نام کے مل جاتے ہیں روز

اُن کے دم سے ہیں مرے سال مہینے روشن

کسی جلوے کی کرامت ہے یہ چشم بینا

کسی دہلیز کا احسان جبین روشن

میرے اشکوں میں عقیدت کے جہاں ہیں آباد

آنکھ میں رہتے ہیں کچھ مکّے مدینے روشن

ہاتھ محنت کے ملیں، آنکھ محبت کی اگر

تبھی کرتی ہے زمین اپنے خزینے روشن

یوں تو دنیا نے جلائے کئی پانی پہ چراغ

دیپ کاغذ پہ کئے ایک ہمی نے روشن

شب کدہ رشکِ چراغاں ہے کہ جس میں ہر سُو

ہو گئے تیری محبت کے قرینے روشن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]