خواب کدھر چلا گیا ؟ یاد کہاں سما گئی ؟

چشم و چراغِ عشق کو کون ھوا بُجھا گئی ؟

ھجر تو جاگتا رھا رُوح کے درد زار میں

جسم کی خواب گاہ میں وصل کو نیند آ گئی

وقت نے ختم کردیے سارے وسیلے شوق کے

دل تھا، اُلٹ پلٹ گیا ! آنکھ تھی، بُجھ بُجھا گئی

نرم لبوں سے سخت بات ایسے ادا ھوئی کہ بس

شہد میں مل گیا نمک، دن میں ھی رات چھا گئی

رنگ برنگ تتلیو ! اب کسے ڈھونڈتی ھو تُم ؟

خوشبو کو لے گئی ھوا، پھول کو خاک کھا گئی

ھم تو بس اچھے دوست تھے، ھم تو بس اچھے دوست ھیں

پھر یہ ھمارے درمیاں پریت کہاں سے آگئی ؟

ایک تمہارے دل میں تھا، ایک تھا میری آنکھ میں

آندھی چلی فراق کی ، دونوں گھروندے ڈھا گئی

جسم تو خیر جسم تھا، جسم کا تذکرہ ھی کیا

ایک نگاہ میں وہ آنکھ رُوح کے بھید پا گئی

بُھولی ھوئی صدا کا چاند صحن میں چمکا ؟ یا بُجھا ؟

گذرے ھوئے دنوں کی یاد دھیان میں آئی ؟ یا گئی ؟

صبر کی رھگزار پر ایسے مِلی شبِ طلب

مُجھ کو بھی ڈگمگا دیا، آپ بھی لڑکھڑا گئی

چشمِ زدن میں دو جہاں جیسے اُلٹ کے رہ گئے

آنکھ جُھکی تو حشر اُٹھا، آنکھ اُٹھی تو چھا گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]