خواب ہوں ، خواب کا گماں ہوں میں

شعر کی نبض ہوں ، رواں ہوں میں

ہر طرف تُو ہی تُو ہے ، گویا کہ

میں کہیں بھی نہیں ، کہاں ہوں میں

ایک لمحہ بچا ہوں ، سو وہ بھی

ہر حوالے سے رائیگاں ہوں میں

تھک گئے ہو تو داستاں گو ہوں

سُن رہے ہو تو داستاں ہوں میں

اور متروک خواب بھی ہیں بہت

میں اکیلا نہیں ، جہاں ہوں میں

تو مری کھوج سے تھکا ، اور میں

چیختا رہ گیا ، یہاں ہوں میں

رُونما ہو رہا ہے تُو جیسے

اور چھٹتا ہوا دھواں ہوں میں

آسماں ہے زمیں پہ گرنے کو

اور دونوں کے درمیاں ہوں میں

چل رہا تھا گریز پاء خود سے

تھک گیا ہوں کہ بےکراں ہوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]