خود اپنے ہاتھ سے اپنا فسانہ لکھا ہے

سو کیسے تَیروں جہاں ڈوب جانا لکھا ہے

حروف بھی ہیں لکیروں میں اور نقطے بھی

مری ہتھیلی پہ لفظِ خزانہ لکھا ہے

!مجھے یہ فخر ہے ، اے ساکنانِ عشقستان

کہ میں نے آپ کا قومی ترانہ لکھا ہے

!تری کہانی بدل دوں گا کاتبِ تقدیر

میں رو پڑوں گا جہاں مسکرانا لکھا ہے

کسی شریر نے مسجد کے داخلی در پہ

جلی حروف میں کیوں بادہ خانہ لکھا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]