خوشاکہ دل کی ہے بس ایک ہی طلب شب و روز

بسر ہوں کاش مدینے میں میرے اب شب و روز

قبائے اُسوۂ سرکار جب ملے گی تجھے

بہار زیست کی دکھلا سکیں گے تب شب و روز

خیال طوفِ مدینہ پہ جب ہوا مائل

شمیم یاد کی دینے لگے عجب شب و روز

دل و نگاہ کو پاکیزگی کی بھیک ملے

تو ہے یقین بنیں زر نگار سب شب و روز

ہوں خواب میں جو مُیسر تجلیّاتِ نبی

سکھائیں زیست کو ممکن ہے کچھ ادب شب و روز

یہ اِک علامتِ تقریبِ حاضری ہے کہ ہیں

اِک اضطراب سے دوچار بے سبب شب و روز

بس اِک سوال دلِ ناصبور کرتا ہے

نصیب ہوں گے مجھے حاضری کے کب شب و روز

سبق کتابِ الٰہی کا گر عمل میں ڈھلے

دکھائیں سیرتِ اطہر کی تاب و تب شب و روز

حضور ! خاص عنایات کی ضرورت ہے

رواج پاتا ہے کردارِ بولہب شب و روز

سلام عرض کروں جب درِ رسول پہ میں

تو حاضری کا بنے مستقل سبب شب و روز

بھلا چکی ہے جو اُمت پیامِ ختمِ رسل

ہوئے ہیں تیرگیوں سے مثالِ شب، شب و روز

یقیں ہے آج بھی کامل ہو اتباعِ نبی

تو ہاتھ باندھ کے حاضر ہوں با ادب شب و روز

جو لوگ ذکرِ رسالت مآب کرتے ہیں

فرشتے چومنے لگتے ہیں اُن کے لب شب و روز

مثال غیروں کی رکھتی ہے سامنے اُمت

زوال دیکھ رہی ہے اِسی سبب شب و روز

جھلک رہی ہیں جو کیفیتیں سخن میں عزیزؔ!

بنا دے حال وہی کاش میرا رب شب و روز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]