خوشی سمیٹ کے رکھ اور غم سنبھال کے رکھ

ہوا ہے عشق میں جو کچھ بہم ، سنبھال کے رکھ

یہ قیمتی ہیں ، اِنہیں یوں نے بے دریغ لُٹا

ان آنسوؤں کو سرِ چشمِ نم سنبھال کے رکھ

ہمیں تو خیر گنوا ہی دیا ہے تو نے مگر

ہماری یاد کو تو کم سے کم سنبھال کے رکھ

یہ دور عرضِ سخن کا نہیں ، سکوت کا ہے

ابھی اثاثۂ لوح و قلم سنبھال کے رکھ

یہاں کی خاک بھی حقدار احترام کی ہے

دیارِ عشق میں فارس قدم سنبھال کے رکھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]