خیرات

وقت کے ہاتھ پھیلے رہے دیر تک
ہم بھی خیرات میں عمر دیتے رہے
وقت ، کہ ایک ایسا گداگر ہوا
جس کا کشکول جادو کا کشکول ہے
جس میں سکہ گرا تو فنا ہو گیا
اک دھوئیں کی طرح سے ہوا ہو گیا
وقت ، کہ ایک ایسا گداگر ہوا
جو کہ اندھا بھی گونگا بھی بہرا بھی ہے
جو کہ سائل ہوا تو صدا تک نہ دی
جس نے خیرات لے کر دعا تک نہ دی
وقت کے ہاتھ پھیلے رہے دیر تک
ہم بھی خیرات میں عمر دیتے رہے
اور ہم وہ سخی تھے کہ دیکھا نہیں
وقت کے گہرے ، تاریک کشکول میں
جو کہ چھن سے گری ہے وہ کیا چیز تھی؟
اشرفی اپنے بچپن کے سونے کی تھی؟
یا روپے تھے جوانی کی چاندی کے وہ؟
یا بڑھاپے کے تانبے کے سکے گئے؟
وقت کے گہرے ، تاریک کشکول میں
چھنچھناتے ہوئے عمر گرتی رہی
اور پھر آخرش آج یہ حال ہے
گھر کی چوکھٹ پہ ماتھا ٹکائے ہوئے
صبح سے آ کے بیٹھے ہیں دہلیز پر
خوف سے کپکپاتے ہوئے ہاتھ میں
آخری سانس کی ریز گاری لیے
جانے کب وقت کشکول لے کر بڑھے
اور جادو کے تاریک کشکول میں
آخری سانس کی ریز گاری گرے
اور چھناکے کی آواز کے ساتھ ہی
کٹ گرے آخری ناطہِ عمر بھی
بند ہو یہ بھی کھاتہِ عمر بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]