خیریت مرہون ہوکر رہ گئی ہے فون کی

آج کل کوئی کشش ہوتی نہیں ہے خون کی

اس کی اپنی منطقیں ہیں اس کے اپنے فلسفے

بھاڑ میں جھونکی ہیں اس نے ڈگریاں قانون کی

اب جماعت میں مجھے آنا ہے اول کرب کی

سب شقیں رٹ لی ہیں میں نے ہجر کے مضمون کی

عمر بھر یہ بد گمانی کی گرہیں کھلنی نہیں

یونہی سلجھاتے رہیں گے گتھیاں ہم اون کی

اس لئے رہتا ہے دونوں کی طبیعت میں تضاد

میں نومبر کی ہوں پیدائش وہ لڑکا جون کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]