داغِ جنوں دھلے تو بہت صاف رہ گئے

شیشے کے تھے لباس جو شفاف رہ گئے

لوگوں کی برچھیوں کو ہدف کی تلاش تھی

جن کو نہ تھی تلاش وہ اہداف رہ گئے

تیری فصیلِ دل کے مگر در نہیں کھلے

ہم لوگ عمر بھر ترے اطراف رہ گئے

اب کیا کسی کے حسن کو ہدیہ کریں یہ دل

اس بے ہنر میں کون سے اوصاف رہ گئے

زنجیر کھینچتے ہیں اگر سانس کھنچ سکی

ورنہ تمہارے طالبِ انصاف رہ گئے

پہنچی ہے زیرِ نافِ حقیقت کمینگی

بہروپیے کے روپ سرِ ناف رہ گئے

تھے کشتہ جنون وہ غالب کہ میر ہوں

ہم کون تھے کہ اس جگہ اسلاف رہ گئے

ناصر نہ آ سکی ہمیں اردو میں گفتگو

سب شین رہ گئے ہیں سبھی قاف رہ گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]