دالان و در و بام منوّر مِرے گھر میں

ہیں جلوہ کُناں گویا پیمبر مِرے گھر میں

ہو سکتا ہے سرکار کی آمد کا اِشارہ

خوشبو سی مہک اُٹھتی ہے اکثر مِرے گھر میں

جب سوچوں کبھی ہوں گے مِرے دُور اندھیرے

خود روشنی آجاتی ہے چل کر مِرے گھر میں

میں دھوپ میں سائے کے مزے لوٹ رہاہوں

رحمت کی ہے برسات برابر مِرے گھر میں

نعلین مبارک کو سجا رکھا ہے میں نے

کیا کہنے کہ ہے نقش پیمبر ِمِرے گھر میں

اعجاز نہیں آپ کی سیرت کا تو کیا ہے؟

رہتی ہیں فضائیں جو معطّر مِرے گھر میں

سُن سُن کے میں سَر دُھنتا ہوں فرمان نبی پر

سرکار دو عالم کا ہے منبر مِرے گھر میں

گونج اُٹھّی فضاؤں میں صدا صلّ علیٰ کی

کیا ہے کوئی اِک گنبد بے در مِرے گھر میں

باتیں ہیں شب و روز مِرے پیارے نبی کی

رہتی ہیں فضائیں بھی مُعطّر مِرے گھر میں

میں روز سجاتا ہوں یہ نعت کی محفل

اِک نور برستا ہے برابر مِرے گھر میں

یہ اُن کا کرم ہے، مِرا قائم جو بھرم ہے

واللہ کہ جو کچھ ہے میسّر مِرے گھر میں

یہ اُن کی عطا ہے مجھے ورثے میں مِلا ہے

صد شُکر کہ ہے فرش کا بِستر مِرے گھر میں

اِک روضے کی تصویر ہے ، دیوار کی زینت

سچ پوچھو تو ہے گُنبدِ اَخضر مِرے گھر میں

جب سامنے آنکھوں کے مِرے چھایا اندھیرا

پھر بہنے لگا نور سمندر مِرے گھر میں

سرکار کے صدقے میں دعا مانگ رہا ہوں

آ جائے گا خود چل کے مقّدر مِرے گھر میں

ہے روشنی سیرت کی ، پریشان ہے پھر کیوں ؟

رستہ بھی مِرے گھر میں ہے ، رہبر مِرے گھر میں

میں کہہ نہیں سکتا کہ تہی دست ہوں مولا

اخلاق حمیدہ کا ہے زیور مِرے گھر میں

کیا مانگوں میں سرکار سے اَب ہاتھ اُٹھا کر

جب اُن کی عنایات ہیں مجھ پر ، مِرے گھر میں

معصوم سی خواہش ہے مِری کیجئے پوری

بَس ٹھہرا رہے ، صبح کا منظر مِرے گھر میں

اَب ہم پہ بھی رحمت کی گھٹا ٹوٹ کے برسے

پیاسے ہیں سبھی ساقیٔ کوثر مِرے گھر میں

نوٹ : نعت نگار سید عارف معین بلے نے اپنی والدہ ماجدہ محترمہ منّور مہرافروز بلے المعروف مہرو کی فرمائش پربار گاہ رسالت پناہ کے حضور یہ نعت پیش کرنے کی سعادت سمیٹی ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی برکات سے اُنہیں اور اُن کی والدہ مرحومہ کی روح پُرفتوح کو مالامال فرمائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]