درد روزن سے مجھے گھور رہا ہے اب تک

میں نے جو زخم سیا تھا وہ ہرا ہے اب تک

میرے جراح تجھے بھول کہاں سکتا ہوں

ایک نشتر مرے سینے میں گڑا ہے اب تک

ایک بس تیرے بدلنے پہ ہی موقوف نہیں

عشق کم بخت سے کیا خاک ہوا ہے اب تک

رات ہونے کو ہے بہتر ہے کہ اب کوچ کریں

جانے والا تو نہیں لوٹ سکا ہے اب تک

معجزہ چاہیئے قسمت کے مقابل کوئی

اور اس دل نے تماشہ ہی کیا ہے اب تک

بک گئے کار گہِ وقت میں اصنام مگر

دل وہ نادان کہ سجدے میں پڑا ہے اب تک

بات کچھ ہے تو بتا بھی کہ ستم گر تو نے

صرف اک نام تواتر سے لیا ہے اب تک

آنکھ جب دید سے عاری ہے کس کی خاطر

خواب پلکوں پہ کوئی جھول رہا ہے اب تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]