درِ زہرا پہ ہے نظر اپنی

آج قسمت ہے اوج پر اپنی

میرے شبیر! مجھ کو دکھلا دے

اپنا دربار ، رہگزر اپنی

ذکر شبیر سے ہے کام فقط

داستاں ہے یہ مختصر اپنی

کیوں نہ آساں ہو دشت غم کا سفر

ہے تری یاد ہمسفر اپنی

میرا صحرائے جاں بھی ہو شاداب

تم اگر ڈال دو نظر اپنی

مدح آل نبی کی مد میں سدا

خرچ ہو دولت ہنر اپنی

گلشن فاطمہ سے ہے منسوب

شاخ دل ہوگی بار ور اپنی

وہ فنا فی الحسین ہوگیا ہے

اس کو کچھ بھی نہیں خبر اپنی

گلشن فاطمہ ترے صدقے

ہوگئی شاخ ہر شجر اپنی

میں حسینی ہوں مجھ سے بات نہ کر

محفل انجم و قمر اپنی

مل گیا نورؔ دامن شبیر

ہو گئی زیست معتبر اپنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]