در سرکار پہ جانے میں مزہ آتا ہے

حال رو رو کے سنانے میں مزہ آتا ہے

صاحبِ گنبد خضریٰ کی توجہ کے طفیل

آسمانوں کو جھکانے میں مزہ آتا ہے

قمقمے گھر کے در و بام پہ روشن کرکے

بزم سرکار سجانے میں مزہ آتا ہے

ڈھونڈتے رہتے ہیں جو ذکرِ نبی کی محفل

ان فرشتوں کو بلانے میں مزہ آتا ہے

جب برستا ہے ترا ابرِ کرم میرے نبی

اس گھڑی خوب نہانے میں مزہ آتا ہے

جس کو کہتے ہیں غبار درِ سلطانِ امم

تاج وہ سر پہ سجانے میں مزہ آتا ہے

نقش پائے شہ کونین کی باتیں کر کے

فکر کو راہ پہ لانے میں مزہ آتا ہے

اسوۂ رحمت عالم کا سہارا لے کر

رونے والوں کو ہنسانے میں مزہ آتا ہے

واسطہ سرور کونین کا دے کر مجھ کو

روٹھی قسمت کو منانے میں مزہ آتا ہے

ناصبیت کے مکاں اس سے لرز جاتے ہیں

حیدری نعرہ لگانے میں مزہ آتا ہے

ہر گھڑی شام و سحر ذکرِ شہ کون و مکاں

نورؔ کو سننے سنانے میں مزہ آتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]