دلوں کا میل اگر دور ہو نہیں سکتا

کوئی بھی قرب سے مسرور ہو نہیں سکتا

وہ جس میں حبِّ محمد کی شمع روشن ہو

وہ دل لحد میں بھی بے نور ہو نہیں سکتا

سبق یہ عصرِ رواں سے ملا، کوئی سلطاں

ولی کی طرح سے مشہور ہو نہیں سکتا

مئے یقیں کا کوئی جرعہ پی کے دیکھ ذرا

یہ َنشَّہ وہ ہے جو کافور ہو نہیں سکتا

عمل گریز کوئی دعوئے مسلمانی

کسی بھی شکل میں منظور ہو نہیں سکتا

یقیں کی دولتِ بیدار جس کو حاصل ہو

وہ حادثات سے رنجور ہو نہیں سکتا

خیال و خواب ہے فوز و فلاح بھی جب تک

عمل خلوص سے بھرپور ہو نہیں سکتا

طریق، چند شیاطین جو بنا ڈالیں

وہ دینِ حق کا تو دستور ہو نہیں سکتا

یہی ہے ختمِ نُبوت کا مدَّعا احسنؔ

مُطَاع اب کوئی مامور ہو نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]