دل آج مرا منہمکِ کارِ ثنا ہے

اس بندۂ عاجز پہ یہ احسانِ خدا ہے

لاریب کہ جس روز سے یہ چاند چڑھا ہے

ظلمت کی قبا چاک ہے بارانِ ضیا ہے

از قولِ ” لَقَد مَنَّ ” پتہ مجھ کو چلا ہے

بعثت شہِ کونین کی اک خاص عطا ہے

ظلمت کدۂ دہر میں وہ شمعِ ہدیٰ ہے

ہر طالبِ منزل کے لئے راہنما ہے

قسّامِ ازل نے کوئی رس گھول دیا ہے

شیریں سخنی نطقِ محمد پہ فدا ہے

سرچشمۂ فیض و کرم و جود و سخا ہے

وہ جامعِ اوصافِ حمیدہ بخدا ہے

ہر حرفِ سخن گوہرِ شب تاب ہو جیسے

ہر قول فقیہانہ ہے حکمت سے بھرا ہے

صناعی فطرت کا ہے بے مثل نمونہ

سر تا بہ قدم حسن کے سانچہ میں ڈھلا ہے

وہ رحمتِ عالم ہے وہ ہے منبعِ رافت

اخلاقِ مجسم ہے وہ فانوسِ حیا ہے

حیرت زدۂ قصۂ معراج ہے دنیا

کیا طرفگی فیصلۂ قدر و قضا ہے

وہ مرکزِ امیدِ خلائق سرِ محشر

ہر فرد جدھر وہ ہیں اُدھر بھاگ رہا ہے

وہ عالمِ ناسوت ہو یا عالمِ لاہوت

اک غلغلۂ صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ ہے

فکر و غمِ امت میں نہیں آنکھ لگائی

ہے آخرِ شب اور وہ مصروفِ دعا ہے

کیفیتِ صہبائے حقیقت وہی جانے

جس نے کہ خمستانِ محمد سے پیا ہے

اللہ دکھائے کبھی بیتاب نظرؔ کو

وہ شہر کہ آئینۂ فردوس بنا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]