دل ابھی گہوارۂ اوہام ہے

رشتۂ ایماں ابھی تک خام ہے

کفر سے آلودہ اُف اسلام ہے

جی رہا ہوں موت کا ہنگام ہے

موت ہے وجہِ سکونِ زندگی

ابتدا منت کشِ انجام ہے

حسن محتاجِ نگاہِ عشق کب

حسن اپنا آپ ہی انعام ہے

خوفِ رسوائی سے نالہ کش نہیں

لوگ یہ سمجھے مجھے آرام ہے

بے کسی، مجبوریاں، درد، آہ و غم

زندگی شاید اسی کا نام ہے

حسنِ ظاہر پر جو مرتے ہیں نظرؔ

حسنِ باطن سے انھیں کیا کام ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]