دل بہت بے قرار ہے آقا
آپ کا انتظار ہے آقا
آپ کا ذکر ہے سکوں دل کا
آپ سے ہی قرار ہے آقا
آپ رہبر ہیں آپ ہی منزل
سہل اب رہگزار ہے آقا
میرا سب کچھ مری غلامی ہے
بس یہی افتخار ہے آقا
کچھ سہی آپ سے ہوں وابستہ
فضلِ پروردگار ہے آقا
کیا کہوں آپ سے چھپا تو نہیں
میرا جو حالِ زار ہے آقا
میں کہاں کیا مرا عمل نامہ
آپ پر انحصار ہے آقا
ہے یہی التجائے چشمِ نم
یہی دل کی پکار ہے آقا
اک نگاہِ کرم مری جانب
ہر نفس گنہگار ہے آقا
صیقلِ زنگِ دل کی حسرت ہے
دل پہ چھایا غبار ہے آقا
آپ کا لطف و جود و احساں ہو
ہر خزاں پھر بہار ہے آقا
اک اشارہ جو آپ فرما دیں
میری کشتی بھی پار ہے آقا
آپ چاہیں تو کیا نہیں ممکن
آپ کا اختیار ہے آقا
پاس اک بار پھر بلا لیجے
آپ سے دوری بار ہے آقا
بارشِ نور میں نہانے کو
پھر یہ دل بیقرار ہے آقا
ذرہ ذرہ یہاں کا میرے لئے
گوہرِ شاہوار ہے آقا
سنگِ در ہو جبینِ عارف ہو
یہ دعا بار بار ہے آقا