دل تو پتھر ہوئے، غم پھر بھی کسک دیتے ہیں

آگ اتنی ہو تو پتھر بھی چمک دیتے ہیں

خاک گرتی ہے جو سر پر غمِ دنیا کی کبھی

نام لے کر ترا ہولے سے جھٹک دیتے ہیں

زندگی جب بھی نظر آتی ہے عریاں اپنی

ہم ترے درد کی پوشاک سے ڈھک دیتے ہیں

یاد کے پھول کتابوں میں دبے رہنے دو

خشک ہو جائیں تو کچھ اور مہک دیتے ہیں

جو نہ بادل میں رہیں اور نہ زمیں پر برسیں

وہی قطرے تو فضاؤں کو دھنک دیتے ہیں

جب سے آئی ہیں مری آنکھوں میں نظریں اس کی

گھپ اندھیرے بھی اجالوں کی چمک دیتے ہیں

مجھ کو چہروں پہ نظر آتی ہے رفتارِ زماں

گھر کے آئینے زمانے کی جھلک دیتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]